donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shahid Jameel
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* بیمار عہد کا المیہ *
بیمار عہد کا المیہ

سفر شروع ہوا تھا
عجب سُرور کے ساتھ
کہ ہر اُمنگ سے لپٹا تھا عزم نو کا غرور
تمام ہمتیں جوش و خروش میں مستور
تمام حوصلے وعدوں کی دید سے مخمور
ہر ایک وعدے کے سر پر سجایقیں کا تاج
ہر اک یقیں میںجوڑے سچ کی آنکھوںکے ہیرے 
ہرایک ہیرے میں روشن اُمید اُمید سے خواب
ہر ایک خواب میں ہنستا ہوا وہی چہرہ
وہ ایک چہرہ
وہ اک داستاں، وہ ایک دعا
وہ سب دکھوں کی دوا، مہر بانِ دست ِ شفا
سفر کا سارا نشہ، بس وہ ایک دستِ شفا
کہ وہ طلسم سراپا تھا اور ہم مسحور
ہمیں خبر ہی کہاں آنکھ دیکھتی کیا تھی
ہمیں پتہ بھی نہیں ، دھڑکنوں کو غم کیا تھا
سو ہم کو علمِ بھی کیا، کب ہمارا دستِ شفا
ہمارے سینے میں چپکے سے ہو گیا داخل
ہمارے خواب ٹٹولے بڑے سکون کے ساتھ
ہماری آنکھوں سے رنگاب لے گیا ہنس کر
کہ ہم یہ کیسے کہیں۔ ہم تو گونگے بہرے تھے
ہمارے چاروں طرف شورشوںکے پہرے تھے

سفر ابھی بھی ہے جاری 
نشہ ابھی بھی ہے طاری
سب اس کے قول و قسم اب بھی ہم میں ہیں رقصاں
ہمارا دستِ شفا
منتخب چراغِ وفا
اب اپنے گھر کے لئے روشنی کا دریا ہے
وہ اپنی آنکھوں کے ہیروں سے جھلکتا ہے
ہمارے خوابوں کی بستی کی زرد تاریکی
اسے سجھائی نہ دے
اس کو کچھ دکھائی نہ دے
ہمارے قیمتی جذبوں کی اُس عمارت میں
وہ چند برسوں کی خاطر ہوا ہے یوں محفوظ
ہماری ساری اُمیدیں جو سر پٹکتی ہیں
اُسے سنائی نہ دیں گی کہ اب وہ بہرا ہے!
اب اس کے چاروں طرف شورشوں کا پہرا ہے!!

سفر یہ جاری رہے گا
کہ آنے والا کل
ہمارے ذوق کو پرکھے اور احتساب کرے
کہ یہ امنگ، یہ ہمت، یہ حوصلہ، یہ لگن
ہماری سرد سرشتوں میں نسل نسل سے ہے
کہ سچ کو بھول کے ہم 
خود کو پھر دکھائیں گے خواب
پھر ایک دستِ شفا ، ہو بہو اسی کی طرح
کہیں سے ڈھونڈ کے لائیں گے
اور سہیں گے عذاب
کہ یہ عذاب ہمیں ہر مرض سے پیارا ہے
سفر یہ ختم نہ ہوگا
سفر یہ جاری ہے!
ہمارے عہد کی یہ رات کتنی بھاری ہے!!
٭٭٭
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 347