* خواب زاروں کے سائے سائے *
خواب زاروں کے سائے سائے
تُم
اپنی بوجھل حقیقتوں کے کہیں کسی ریگ زار میں گم
مری ضرورت کے سارے شاداب موسموں کے
شباب سے دور
جانے کن فاصلوں میں محصور
آپ اپنی ہی ہم زباں ہو
تمہیں کیا خبر
میں اپنے سرسبز خواب زاروں کے سائے سائے
تمہاری جیسی ہی خود پہ مرکوز رہ گزر کو گلے لگائے
تمہیں نہ چھوکر ، تمہیں نہ پاکر بھی کتنا خوش ہوں
میں جانتا ہوں کہ تم کو حیرت ضرور ہوگی
تمہیں بتائوں کہ تم کو چھونے کا ہر تجسس بھی ایک سچ ہے
پھر اس پہ پانے کی ہر تمنا میں دوسرا سچ
اور اس طرح کے ہزاروں سچ ہیں
کہ سچ کا خوابوں سے کیا تعلق
تم اک حقیقت جہاں بھی محدود ہو مجھے کیا
کہ میری آنکھوں نے خواب کرکے
تمہیں کچھ ایسے سجا لیا ہے
مرا سفر میرا بوجھ اٹھائے
تمہیں نہ چھوکر تمہیں نہ پاکر بھی
ہر تعلق، ہر ایک منظر
ہر ایک موسم میں
صرف تم کو ہی چھو رہا ہے
تمہیں کو ہر سمت پا رہا ہے
٭٭٭
|