* کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے *
غزل
کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں رواداریاں نبھاتے ہوئے
کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی ہو کیسے
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے
عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے
کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے
نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی کیوں نور
بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے
شہناز نور
Karachi
(Pakistan)
Mob: 0092216641679
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
**** |