* ہو ساتھ ہم سفر تو سفر کا مزہ نہ پوچھ *
غزل
ہو ساتھ ہم سفر تو سفر کا مزہ نہ پوچھ
نظروں کی گفتگو کے اثر کا مزہ نہ پوچھ
ہر لمحہ زندگی کا بہت ہی حسیں لگے
وہ ساتھ ہو تو شام و سحر کا مزہ نہ پوچھ
چلنے سے جس پہ ملتی ہے منزل حیات کی
اُس خاردار راہ گزر کا مزہ نہ پوچھ
رنج و الم کی دھوپ میں جلنے کے بعد جو
دیتا ہے چھائوں ایسے شجر کا مزہ نہ پوچھ
جن کے عوض غریب کو ملتی ہے روٹیاں
اُن محنتوں کے لقمۂ تر کا مزہ نہ پوچھ
خوف و خطر میں پل کے میں بے خوف ہوگئی
خطروں سے کھیلنے کے ہنر کا مزہ نہ پوچھ
ہر آہ میں اُسی کا سراپا دکھائی دے
شہنور میرے دردِ جگر کا مزہ نہ پوچھ
شہنور حسین شبنم
114/E, Topsia Road
Near Lal Masjid
Kolkata-700039
Mob: 8820550391
shahnoor_hossain77@yahoo.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|