* تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے *
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جس کو چومتا تھا وہ کاغذ ہی پھٹ گئے
انسان اپنی شکل بھی پہچانتا نہیں
آ آ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے الٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ میرے ہاتھ کٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجئے
رستے بھی سوکھ جائیں گے بادل تو چھٹ گئے
************************* |