شیخ ابراہیم زوق
غزل
ہے کان اُس کے زلفِ معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
میرے دلِ گرفتہ کی واشد ہو کس طرح
ہیہات یاں گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
کھٹکے گی بعد مرگ بھی اس کی مژہ کی نوک
وہ پھانس ہے کلیجے کے اندر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دلبر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خوں کوئی رکتی ہے تیری تیغ
بے ڈھب ہے اس کو چاٹ، ستمگر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزری ہے اس کی راہ گزر پر لگی ہوئی
عیسیٰ اگرچہ پاس ہے، ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تاک جھانک
پروانے سے ہے شمع مکرّر لگی ہوئی
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
گُل مہندی کیوں نہ باغ میں ہو پائمالِ رشک
پاؤں میں تیرے دیکھے حنا، گر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
نکلے ہے کب کسی سے کہ اُس کی مژہ کی نوک
ہے پھانس سی کلیجے کے اندر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جامِ مے تو کیا
ہے دل سے یاد ساقیِ کوثر لگی ہوئی
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(شیخ ابراہیم ذوق)
--