* روٹھی ہوئی خوشی کو منا لائوں ایک د *
روٹھی ہوئی خوشی کو منا لائوں ایک دن
سہمے ہوئے خیال کو بہلائوں ایک دن
کیا کچھ نہیں ہوا تری اِس کائنات میں
اِک خواب میں بھی آنکھ میں ٹھیرائوں ایک دن
سب یار دوست اپنے سرِ شام چل دیے
سوچا ہے میں نے لوٹ کے گھر جائوں ایک دن
جنگل تمام چپ ہے ہوائوں کے خوف سے
دل میں چھپے الائو کو دہکائوں ایک دن
معلوم یہ ہوا کہ وہ گلشن سراب تھے
کوہِ گراں کے پار اُتر جائوں ایک دن
شاید یہ خواب ہے تجھے دیکھا تھا پاس سے
اِس خوابِ ابتلا میں سما جائوں ایک دن
******
|