* آج پھر روشنی سے کھیلا ہے *
آج پھر روشنی سے کھیلا ہے
دل اچانک بہت اکیلا ہے
لہریے بن رہے ہیں پانی پر
موج در موج ایک میلہ ہے
رنگ بکھرے ہیں ٹوٹ کر سارے
کانچ کے زخم کو جو جھیلا ہے
ہے ّمنقش ہوا میں عکس ترا
ان ہوائوں نے کھیل کھیلا ہے
دل کو کس کس طرح سے سمجھائیں
حسرتوں کا جو اِک جھمیلا ہے
روشنی قید میں رہے کب تک؟
شہر میں تیرگی کا ریلا ہے
*****
|