* شام جب آئے گی یادوں کے ُگہر لائے گی *
شام جب آئے گی یادوں کے ُگہر لائے گی
دل کے ویران دریچوں کی خبر لائے گی
اشک تھمتے ہی نہیں آنکھ میں منظر ُچپ ہیں
کون سی شب مری ہستی کی سحر لائے گی
مجھ میں زندہ ہے مگر مجھ سے شناسا ہی نہیں
میری پہچان کا منظر وہ نظر لائے گی
کیوں خموشی سے گزرتے ہیں یہ ایامِ سفر
جانے کسی طور مری آہ اثر لائے گی
اس ہوا سے ہے یہ اُمید کہ یوں ہی اک روز
اِک نئی سمت سے آغازِ سفر لائے گی
*****
|