* قلب سے رشتہ استوار کیا *
قلب سے رشتہ استوار کیا
دل نے چاہا جو بار بار کیا
تیری آہٹ میں گم ہیں شام و سحر
شامِ وعدہ کا اعتبار کیا
ہو کا عالم ہے سارے جنگل میں
یوں بہاروں کا انتظار کیا
سانس لینے لگا ہے ساحل بھی
موج در موج کا شمار کیا
جو ترے در سے اٹھ گئے اُن کو
ہوشمندوں میں کب شمار کیا
تجھ سے رسمِ وفا نبھانے کو
دامنِ دل کو تار تار کیا
******
|