* بکھیر دیجیے اِس راکھ کو ہوائوں می¬ *
بکھیر دیجیے اِس راکھ کو ہوائوں میں
کہ منجمد یہ رہی ذات کی گھپائوں میں
میں ٹھیر ٹھیر کے ہر شعر کو سناتی رہی
وہ قہر ڈھاتے رہے آندھیوں سے گائوں میں
گریز پا ہے بہاروں کے دام سے کوئی
خزاں ہی راس رہی ہے مری فضائوں میں
جو تم نے راستہ بھولا تو گھر نہ لوٹو گے
کہ اب اثر ہی نہیں ہے مری دعائوں میں
سوا ہے غم تری یادوں کا اور ممکن ہے
کہ ڈھونڈنے تجھے نکلے یہ دل خلائوں میں
وہ سادگی ترے بچپن کی بھولتی ہی نہیں
تمام عمر کا جادو ہے اُن ادائوں میں
******
|