* تارِ دل اِک رباب ہو جائے *
تارِ دل اِک رباب ہو جائے
سرد پانی شراب ہو جائے
تجھ کو لکھنا بھی اِک سزا ٹھہرے
تو جو اِک آفتاب ہو جائے
تیر سی چبھ رہی ہے چشمِ کرم
جسم و جاں انقلاب ہو جائے
دوستی ہے کہ دشمنی جانم
آج آئو حساب ہو جائے
کس عقیدت سے چوٹ کھائی ہے
زخمِ دل اِک گلاب ہو جائے
میرے رستے میں آج صحرا ہیں
نیند آنکھوں میں خواب ہو جائے
بے محبت سی زندگی کے لیے
بارِ خاطر شباب ہو جائے
اِس قدر بھیڑ میں ہو کیوں تنہا؟
تو جو آئے جواب ہو جائے
******
|