* سوچ کے سمندر میں بے شمار دھارے ہیں *
سوچ کے سمندر میں بے شمار دھارے ہیں
بے قرار موجوں کے ہر نفس کنارے ہیں
آنکھ موند لیتے ہیں جب بھی نیند آ جائے
تختۂ ندامت پر ہم نے خواب ہارے ہیں
زخم زخم پھولوں پر خون ہے اُمنگوں کا
قرض جو نہ واجب تھے جان پر اُتارے ہیں
شورشِ زمانہ بھی تھم گئی ہے اِک پل کو
سامنے تلاطم کے ُپرسکوں نظارے ہیں
کون سچ کی راہوں میں شمع دل جلائے گا
روشنی کے منبر پر تیرگی کے مارے ہیں
*****
|