* شام اپنے لیے پھول زخموں کا تحفہ سج *
شام اپنے لیے پھول زخموں کا تحفہ سجانے لگی
دل جلی شام آنچل میں سج کر دکھوں کے فسانے لگی
کون کہتا ہے کہ راہِ الفت وفائوں کی ہے رہ گزر
ہم نے جب بھی وفائوں کے سپنے بنے تلخیٔ روز و شب دل جلانے لگی
روشنی کے مسافر کبھی ہم بھی تھے، پیار ہم کو بھی تھا زندگی سے مگر
سوگئے خواب آنکھوں میں تھک کر کہیں شب کی محرومیاں راس آنے لگی
ہاں ترے وصف سے اے زمانے ہمیں کوئی امید تو اب نہیں ہے مگر
اِن اندھیروں کے جنگل میں بے نام سی روشنی کی کرن جھلملانے لگی
کتنی آہستگی سے لٹا قافلہ اہلِ دل کو ابھی تک خبر ہی نہیں
کون جانے بہاروں کے سائے میں بھی روزنوں سے خزاں مسکرانے لگی
ناصحا تیری ہر بات مانے ہے دل، اپنی آزردگی کو مگر کیا کریں
جب بھی ہم سے ملی جھوم کر چاندنی دل میں یادوں کی شمعیں جلانے لگی
جب بھی تنہائیوں کا اجالا کیا جب بھی سوچا کیے بے خودی کا سبب
اشک لفظوں میں ڈھل کر غزل بن گئے دل کی تنہائیاں گنگنانے لگی
******
|