* پھر کھلے ہیں مرے احساس کے سونے بن م *
پھر کھلے ہیں مرے احساس کے سونے بن میں
جھلملاتی ہوئی یادوں کے مہکتے گلشن
ان ہوائوں نے بڑے دکھ سے بتایا ہے مجھے
میرے ہاتھوں میں کھنکتے نہیں سکھ کے کنگن
میری آنکھوں میں مہکتے نہیں خوابوں کے گلاب
دل کے آنگن سے گریزاں ہے بہاروں کا چلن
پھر بھی اِس دل میں برستی ہے خیالوں کی گھٹا
کتنا پیارا ہے بہاروں کا خزاں سے بندھن
لفظ کھلتے ہیں گلابوں کی مہک، رنگ لیے
موسمِ درد سے مہکا ہے خزائوں کا چمن
اور کچھ دُور چلو توڑ دو زنجیرِ انا
ہم کو برباد کیے دیتا ہے رسموں کا گہن
******
|