* میں نے صدیوں کا بار اٹھایا ہے *
وقت
میں نے صدیوں کا بار اٹھایا ہے
میں شجر ہوں تری رفاقت کا
میری ہر سانس سینچتی ہے نمو
دھوپ میں روپ ہوں تمازت کا
میں نے دیکھے ہیں سارے حزن وملال
میں نے خوابوں کو زندگی دی ہے
اپنے افکار کے تسلسل سے
ان اندھیروں کو روشنی دی ہے
میری منزل مگر نہیں کوئ
ہوں میں تنہا بھرے زمانے میں
میری تنہائ کو زوال نہیں
عکس بے رنگ ہیں فسانے میں
میری نظریں جو آسمان پہ ہوں
پاؤں میرے زمیں پہ رہتے ہیں
میرے ہم راز صرف ارض و سماں
گوشہء دل میں درد پلتے ہیں
میں ہمیشہ سے تھا ہمیشہ ہوں
کارواں زیست کے بدلتے رہے
کون جانے کہ ان خلاؤں میں
میریی آنکھوں کے دیپ جلتے رہے
مجھ کو جس کی تلاش ہے کب سے
وہ ستارہ کبھی طلوع نہ ہوا
منتظر ہوں ہزار صدیوں سے
اس سفر کا کہ جو شروع نہ ہوا
شائستہ مفتی
************************ |