* شبِ ہجر *
شبِ ہجر
رات بے چین ہوائوں میں گھری جاتی ہے
غیر محسوس سے لفظوں میں کہانی دل کی
سنی جاتی ہے، فضائوں سے کہی جاتی ہے
روز و شب معنی و مفہوم سے بالا ہوکر
آس اُمید کے جنگل میں اُتر آتے ہیں
روز سورج چلا آتا ہے اِسی محور پر
ریگ زاروں میں ترے خواب بچھے جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ گردش میں ہیں یہ کون و مکاں
کس کو کھویا ہے کہاں ڈوب گیا ہے تارا
کتنی بے چین ہے یہ مست ہوا تیرے بغیر
کتنی مبہم نظر آتی ہے فضا تیرے بغیر
کوئی تو ہے جو شبِ ہجر کا آنچل اوڑھے
یوں سرِ بام نکل آیا ہے مہتاب لیے
رات آئی ہے کئی راز چھپانے کے لیے
دوش پر دیپ محبت کے جلانے کے لیے
رات بے چین ہوائوں میں گھری جاتی ہے
***** |