* محبت سوچتے رہنا۔۔۔ *
محبت سوچتے رہنا۔۔۔
محبت کیا ہے— شاید بحرِ امکاں میں فنا ہونا
تمھاری چشمِ تر کے سامنے سب کچھ بھلا دینا
کبھی تاروں سے جاکے حالِ دل، حالِ چمن کہنا
کبھی چپ چاپ دن کرنا، یونہی چپ چاپ سوجانا
کبھی آنسو بہا لینا کبھی اشکوں کو پی لینا
مجھے سب یاد ہے وہ دن ڈھلے رستوں میں کھو جانا
محبت کیا ہے— شاید زہر ہے، امرت ہے، سایا ہے
وہ سایا جو مری ہستی پہ اکثر لوٹ آیا ہے
مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اُس کی زباں بولوں
بھلادوں خود کو اور دیوانگی کی راہ کو چن لوں
میں لفظوں کی امیں بن کر قضا کے زہر کو پی لوں
مجسم سادگی بن کر تمھارے تارِ دل چھولوں
محبت کیا ہے— شاید راستوں پر ڈھونڈنا اُس کو
جسے ٹھکرا دیا پھر جذبِ دل سے پوجنا اُس کو
محبت سادگی سے سوچتے رہنا یہی اکثر۔۔۔!
کہ ہم منزل جنوں کی اور پیچھے چھوڑ آئے ہیں
گل و بلبل سے رشتہ تھا وہ رشتہ توڑ آئے ہیں
محبت بادلوں کے ساتھ پھر یکدم ہی چھائے گی
ہری کونپل سے باہم ہوکے دل میں پھوٹ آئے گی
تمھارے سب قوی دعوئوں سے سنگت چھوٹ جائے گی
محبت پھر تمھاری چشمِ تر میں لوٹ آئے گی
*****
|