* بدلتے موسم کی آہٹوں میں *
رِشتہ
بدلتے موسم کی آہٹوں میں
اگر کبھی
میرا سامنا ہو
گزر ہی جانا۔۔۔ نگہ چرا کر
نہ لب ہلانا۔۔۔ نہ ہاتھ رکھنا
اگر تمھیں دل کو ۔۔۔ تھامنا ہو
کہ ایسا ہوتا ہے چاہتوں میں
محبتوں کے عجیب رشتے
جدائیوں کے عمیق لمحے
سنورتے جاتے ہیں دُوریوں میں
یہی سمجھنا۔۔۔
کہ تم سے میرا یہی ہے رشتہ
کہ جیسے شبنم کا پھول سے ہے
کہ جیسے آنسو کا آنکھ سے ہے
گزرتی عمروں میں چاہتوں کی حسین یادیں
یہی فقط چاہ کا ہے تحفہ
تلاش کرنا ہماری خوشبو
چٹکتی کلیوں کی ساعتوں میں
میں رنگ بن کر
تمھیں ملوں گی
بدلتے موسم کی آہٹوں میں—
******
|