* لمحوں کا سفر کس طور ہمیں کیا جانے ک *
الوداعی نظم
لمحوں کا سفر کس طور ہمیں کیا جانے کہاں پر لے جائے
اے کاش کہ جذبوں کی یہ مہک کچھ دیر یہاں پر تھم جائے
بے لوث رفاقت کی یادیں آنکھوں میں سجائے سوچتے ہیں
ہر سورج اپنی کرنوں میں یادوں کے خزانے چن لائے
موسم تو زمانے کا ہر دم، ہر آن بدلتا رہتا ہے
کچھ چہرے وقت کی گردش میں رہ کر نہ کبھی بھی دھند لائے
ہر سال یہاں پر خوشیوں کا اِک روز منایا جاتا ہے
گر ہم نہ سہی تو اگلے برس اِک بھولی بسری یاد آئے
اِس دنیا کے ہنگاموں میں ہم کتنے تنہا ہوتے ہیں
یہ لمحے پیار کی چھائوں تھے جو اتنی جلدی کمھلائے
کل جانے کون کہاں ہوگا یادوں کے میٹھے خواب لیے
منزل نہ سہی منزل کی طرف اپنوں کی دعائوں کے سائے
******
|