* فلک کے پار گھنے بادلوں کی سرحد سے *
کفِ افسوس
فلک کے پار گھنے بادلوں کی سرحد سے
اٹھے ہیں سوچ کے بادل چھڑی ہے وہ رم جھم
کہ لگ رہا ہے کہ طوفان ہے قریب کہیں
کہیں قریب ہی آندھی سے سرخ ہے موسم
یہ وقت پھر وہ زمانے تلاش کرتا ہے
کہ جب زباں پہ گرہ تھی نہ دل میں تھا یہ غبار
برس برس کے سما نیلگوں سمندر تھا
ہر ایک غنچۂ لالہ سے پھوٹتی تھی بہار
میں اب بھی سوچ کے گہرے گھنیرے جنگل میں
تلاشتی ہوں اُسی خواب کے حسین کنول
کبھی جو جھیل کے پانی پہ رقص کرتے تھے
مہک سے جن کی ہواؤں میں گھل گیا صندل
ہوں شرم سار کہ ہم آنے والی نسلوں کو
جمالِ خواب کی کرنین تمام دے نہ سکے
ہمارے ذہن میں روشن رہی جو شمعِ طرب
اُس اِک کرن کو مقامِ دوام دے نہ سکے
******
|