* خالی کمرے میں مرا رختِ سفر رکھا ہے *
رَختِ سفر
خالی کمرے میں مرا رختِ سفر رکھا ہے
چند ارمان ہیں پوشیدہ نہاں خانے میں
کرچیاں خواب کی رکھی ہیں حفاظت سے کہیں
اور کچھ پھول چھپا رکھے ہیں انجانے میں
ڈھونڈتی پھرتی رہی روح کسی ساتھی کو
دربدر ٹھوکریں کھاتا رہا پندار مرا
اپنی مٹی سے بھی اٹھی نہیں سوندھی خوش ُبو
غیر کے دیس میں لٹتا رہا سنسار مرا
اجنبی آنکھوں میں مانوس وفاؤں کا چراغ
ایک امید پہ جلتا رہا گھپ راتوں میں
جسم مٹی کی طرح گھلتا رہا پانی میں
رنگ بے رنگ ہوئے جاتے تھے برساتوں میں
تیری امید پہ کھولا ہوا در رکھا ہے
خالی کمرے میں مرا رختِ سفر رکھا ہے
*****
|