* تارِ دل اک رباب ہو جاءے *
تارِ دل اک رباب ہو جاءے
سرد پانی شراب ہوجاءے
تجھ کو لکھنا بھی اک سزا ٹہرے
تو جو اک آفتاب ہو جاءے
تیر سی چبھ رہی ہے چشمِ کرم
جسم و جاں انقلاب ہو جاءے
دوستی ہے کہ دشمنی جانم
آج آؤ حساب ہو جاءے
کس عقیدتت سے چوٹ کھائ ہے
زخمِ دل اک گلاب ہو جا ءے
میرے رستے میں آج صحرا ہیں
نیند آنکھوں میں خواب ہو جاءے
بے محبت سی زندگی کے لیے
بارِ خاطر شباب ہوجاءے
اسقدر بھیڑ میں ہو کیوں تنہا؟
تو جو آءے جواب ہو جاءے
شائستہ مفتی
|