شمیؔم ہاشمی
یاد کا نشتر جو تنہائ نکیلا کر گئ
وقت کے سوکھے ہوۓ زخموں کو گیلا کر گئ
وقت پڑنے پر وفا تیری جو حیلا کر گئ
زندگی کا پیچ و خم کچھ اور ڈھیلا کر گئ
درد کی بھٹّی میں میری تشنگی تپتی رہی
آنچ کی شدّت بدن کا رنگ نیلا کر گئ
دل کے صحرا میں کسی کی یاد کے تلوے جلے
آنکھ کی بارش سلگتی ریت گیلا کر گئ
انکی آنکھوں سے بہت بچنے کی کوشش کی مگر
بات ہی ایسی تھی جو چہرے کو پیلا کر گئ
یاد ماضی ذہن کے صحرا سے یوں گزری شمیؔم
فکر کے بکھرے ہوۓ ذرّوں کو ٹیلا کر گئ
**************