شمیؔم ہاشمی
ملا جہان میں جو بھی اداس اداس ملا
ہمارے عہد کا ہر شخص بدحواس ملا
تلاش جسکی مجھے دور دور رہتی تھی
کھلی جو آنکھ تو وہ میرے دل کے پاس ملا
پڑھا کبھی جو تری زندگی کا افسانہ
مرے لہو کا کچھ اس میں بھی اقتباس ملا
سمجھ رہا تھا زمانہ ہے ساتھ ساتھ مگر
نظر اٹھائ تو ویرانہ آس پاس ملا
قصور کس کا ہے میری سمجھ میں آ نہ سکا
لہو لہان تمدّن کا ہر لباس ملا
شمیؔم ان کی عنایت ہے اور کیا کہۓ
کہ میری فکر و نظر کو نیا لباس ملا
*****************