* میری تقدیر نہ بن اے مرے خوابوں کی د *
شمیم جھانسوی
خوابوں کی دلہن
میری تقدیر نہ بن اے مرے خوابوں کی دلہن
میں تری مانگوں کا سنگھار نہ بن پائوں گا
دل و دیں ہیں تری معصوم تمنا پہ نثار
مگر اتنا تو سمجھ سوچ مری جانِ بہار
تیرے ہونٹوں کو تبسم کے خزانے درکار
شادمانی کے کنول تیری جوانی کے سنگھار
میری آغوش کے باغات ہیں کانٹوں کی چبھن
میں تری مانگوں کا سنگھار نہ بن پائوں گا
زلف ِ مشکیں ہے تری شامِ اودھ سے یکساں
روئے پر نور پہ ہے صبحِ بنارس کا سماں
چشمِ پر کیف پہ کشمیر کی جھیلوں کا گماں
جسم کے لوچ میں بنگال کا جادو رقصاں
چودھویں شب کی تو مہتاب ہے اور میں ہو ں گہن
میں تری مانگوں کا سنگھار نہ بن پائوں گا
صاف کہتا ہے یہ ڈھلکا ہوا سر سے آنچل
تیری آنکھوں سے چرایا ہے کسی نے کاجل
دیکھ یہ دنیا نہ کہنے لگے تجھ کو پاگل
شمع محفل تو سہی میری محبت میں نہ جل
میری باتوں کو سمجھ ، ڈال نہ ابرو پہ شکن
میں تری مانگوں کا سنگھار نہ بن پائوں گا
نقشِ باطل کی طرح دل سے مٹا دے مجھ کو
بہتری تیری اسی میں ہے بھلا دے مجھو
راہ کی دھول ہوں ٹھوکر سے اڑادے مجھ کو
بھور کا دیپ سمجھ اور بجھا دے مجھ کو
اپنی نادن تمنائوں کو پہنا دے کفن
میں تری مانگوں کا سنگھار نہ بن پائوں گا
٭٭٭
|