* یہ کس قیامت کی بے کسی ہے، نہ میں ہی ا& *
غزل
٭……شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے، نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
نہ خاطرِ بے قرار میری، نہ دیدۂ اشکِ بار میرا
نشانِ تربت عیاں نہیں ہے، ’’ نہیں ‘‘ کہ باقی نشاں نہیں ہے
مزار میرا کہاں نہیں ہے، کہیں نہیں ہے مزار میرا
وصال تیرا، خیال تیرا، جو ہو تو کیوںکر ، نہ ہو تو کیوں کر
نہ تجھ پہ کچھ اختیار میرا، نہ دل پہ کچھ اختیار میرا
نگاہِ دل دوز کی دہائی، جمالِ جاں سوز کی دہائی
رہِ محبت میں غم نے لوٹا، شکیب و صبر و قرار میرا
میں دردِ فرقت سے جاں بلب ہوں تمہیں یقینِ وفا نہیں ہے
مجھے نہیں اعتبار اپنا، تمہیں نہیں اعتبار میرا
قدم نکال ، اب تو گھر سے باہر، جو دم بھی سینے سے سہل نکلے
دکھا نہ اب انتظار اپنا، لحد کو ہے انتظار میرا
سنا ہے اٹھا ہے اک بگولہ، جلو میں کچھ آندھیوں کو لے کر
طوافِ دشتِ جنوں کو شاید، گیا ہے فانیؔ غبار میرا
|