* عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی *
غزل
٭……شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
درد دنیا میں جب آیا تو دوا بھی آئی
دل کی ہستی سے کیا عشق نے آگاہ مجھے
دل جب آیا تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی
صدقے اتریں گے اسیرانِ قفس چُھوٹے ہیں
بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی
ہاں نہ تھا بابِ اثر بند مگر کیا کہئے
آہ پہنچی تھی، کہ دُشمن کی دعا بھی آئی
آپ سوچا ہی کئے اُس سے ملوں یا نہ ملوں
موت مشتاق کو مٹی میں مِلا بھی آئی
لو، مسیحا نے بھی ، اللہ نے بھی یاد کیا
آج بیمار کو ہچکی بھی، قضا بھی آئی
دیکھ یہ جادۂ ہستی ہے سنبھل کر فانیؔ
پیچھے پیچھے وہ دبے پائوں قضا بھی آئی
|