* اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے ک *
غزل
٭……شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی
اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا
مختصر قصّۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین ، خلاصہ ہے اس افسانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آئو، دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سلادے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا
ہڈیاں ہیں کئی، لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لئے جاتے ہیں جنازہ تیرے دیوانے کا
ہر نفس عمرِ گذشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مَرمَر کے جئے جانے کا
|