* مر کے ٹوٹا ہے کبھی سلسلہ قیدِ حیات *
غزل
٭……شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی
مر کے ٹوٹا ہے کبھی سلسلہ قیدِ حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
اثرِ عشق تغافل بھی ہے، بیداد بھی ہے
وہی تقصیر ہے، تعزیر بدل جاتی ہے
کہتے کہتے مرا افسانہ گلہ ہوتا ہے
دیکھتے دیکھتے تدبیر بدل جاتی ہے
روز ہے دردِ محبت کا نرالا انداز
روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے
گھر میں رہتا ہے ، تیرے دم سے اجالا ہی کچھ اور
مہ و خورشید کی تنویر بدل جاتی ہے
غم نصیبوں میں ہے فانیؔ غمِ دنیا ہو کہ عشق
دل کی تقدیر سے تدبیر بدل جاتی ہے
|