* مرکے ٹوٹا ہے کبھی سلسلۂ قیدِ حیات *
غزل
٭…………فانیؔ
مرکے ٹوٹا ہے کبھی سلسلۂ قیدِ حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
اثرِ تغافل بھی ہے، بیداد بھی ہے
وہی تقصیر ہے، تعزیت بدل جاتی ہے
کہتے کہتے مرا افسانہ گلہ ہوتا ہے
دیکھتے دیکھتے تدبیر بدل جاتی ہے
روز ہے دردِ محبت کا نرالا انداز
روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے
گھر میں رہتا ہے، تیرے دم سے اُجالا ہی کچھ اور
مہ و خورشید کی تنویر بدل جاتی ہے
غم نصیبوں میں ہے فانیؔ غمِ دنیا ہو عشق
دل کی تقدیر سے تدبیر بدل جاتی ہے
|