* لطف و کرم کے پُتلے ہو، اب قہر و ستم ک& *
غزل
٭……شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی
لطف و کرم کے پُتلے ہو، اب قہر و ستم کا نام نہیں
دل پہ خدا کی مار ، کہ پھر بھی چین نہیں آرام نہیں
جتنے منہ ہیں اتنی باتیں دل کا پتہ کیا خاک ملے
جس دل نے دل کی چوری کی ہے ایک اسی کا نام نہیں
رک کے جو سانسیں آئیں گی، مانا کہ وہ آہیں تھی لیکن
آپ نے تیور کیوں بدلے آہوں میں کسی کا نام نہیں
عشق کے آزاری بھی کہیں ، مرنے سے جی جاتے ہیں
لے، یہ تسلّی رہنے دے، اے موت ترا یہ کام نہیں
کب سے پڑی ہیں دل میں، تیرے ذکر کی ساری راہیں بند
برسیں گزری، اس بستی میں، رسم سلام وپیام نہیں
دل ہی پہ اپنا بس نہیں چلتا، ان کی شکایت کیا کیجئے
آپ ہم اپنے دشمن ٹھہرے ، دوست پہ کچھ الزام نہیں
دل سے کسی کی آنکھوں تک کچھ راز کی باتیں پہنچی ہیں
آنکھ سے دل تک آیا ہو، ایسا تو کوئی پیغام نہیں
نزع میں فانیؔ تونے یہ کس کا چپکے چپکے نام لیا
کیوں ، او کافر، تیری زباں پر اب بھی خدا کا نام نہیں
****** |