* مری طرح نہ ہو اندر سے بے نوا تو بھی *
غزل
مری طرح نہ ہو اندر سے بے نوا تو بھی
خدا وہ دن نہ کرے خود سے ہو جدا تو بھی
میں اپنی خانہ خرابی کی چوٹ سہ لوں گی
مگر میں سہ نہ سکوں گی جو لٹ گیا تو بھی
سلگ کے بجھ گئے پلکوں پہ آنسوئوں کے چراغ
زمانہ کم تو نہ تھا دے گیا سزا تو بھی
لہولہان کیا پتھروں کی بارش نے
میں شاہکار ہوں تیرا نظر اٹھا تو بھی
بتا تو دے کہ میں کس طرح سر اٹھا کے چلوں
یقین آئے گا کس کو ، بدل گیا تو بھی
میں سنگسار ہوئی جرمِ بے گناہی پر
کوئی گواہ نہ تھا اور چپ رہا تو بھی
اس ایک بات سے کیا کیا نہ داستاں نکلی
کہ بن گیا مرے زخموں کا سلسلہ تو بھی
شیریں زبان خانم شفق
Deptt. of Urdu
T.N.B. College
Bhagalpur (Bihar)
Mob: 9431876507
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|