* ذہنوں میں حادثات بٹھائے ہوئے ہیں *
غزل
ذہنوں میں حادثات بٹھائے ہوئے ہیں لوگ
کیوں آسمان سر پہ اٹھائے ہوئے ہیںلوگ
حالانکہ گلستاں پہ چمکتی ہیں بجلیاں
پھر بھی نشیمنوں کو سجائے ہوئے ہیں لوگ
اب دیکھنا ہے کس کے ہو میدان ہاتھ میں
سر پہ کفن تو باندھ کر آئے ہوئے ہیں لوگ
جن حسرتوں کی کوئی زباں تک نہ پڑھ سکا
اُن حسرتوں کا شہر بسائے ہوئے ہیں لوگ
ہر سمت آندھیاں ہیں مگر عزم دیکھئے
اک شمع حوصلوں کی جلائے ہوئے ہیں لوگ
بے اعتبار ہونے لگیں آہ و زاریاں
کچھ ایسے زخم اشکوں کی کھائے ہوئے ہیں لوگ
تنہا دکھائی دیتے ہیں لاکھوں کی بھیڑ میں
شوبھا جو حادثوں کے ستائے ہوئے ہیں لوگ
شوبھا چندر پاریک
392, Gaitor Road
Barhampuri
Jaipur-302002
(Rajisthan)
Mob: 9314962065
Ph:0141-2671642
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|