غــــزل
دل ہی گرداب تمنا ہے یہیں ڈوبتے ہیں
اپنے ہی غم میں ترے خاک نشیں ڈوبتے ہیں
دل فقیرانہ تھا مہرومہہ و انجم نہ بنے
حس کی مانندرہے ہم کہ نہیں ڈوبتے ہیں
ہم اگر ڈوبے توکیا، کون سے ایسے ہم تھے
شہر کے شہر جہاں زیر زمیں ڈوبتے ہیں
اپنی روپوشی تہہ خاک مقدر ہے تو کیا
ڈوبنے کو تو ستارے بھی کہیں ڈوبتے ہیں
نا خدا ہوکہ خدا دیکھتے رہ جاتے ہیں
کشتیاں ڈوبتی ہیں اس کے مکیں ڈوبتے ہیں
پار اترنا ہے تو کیا موج بلا کام نہنگ
دوستو آئو‘ چلو پہلے ہمیں ڈوبتے ہیں
عشق وہ بحر مجیبی ؔ ہے کہ دیکھا ہم نے
خاروخس پار ہوئے اہل یقین ڈوبتے ہیں
صدیق مجیبی ،رانچی