* ہر طرف ہے دشتِ غم پھیلا ہوا *
کہمن
سہیل غازی پوری
دشتِ غم
منظر:
ہر طرف ہے دشتِ غم پھیلا ہوا
اور اس پر ہم سفر کوئی نہیں
جس طرف نظریں اٹھا کر دیکھئے
دھوپ رقصاں ہے، شجر کوئی نہیں
گرد اڑتی ہے ہوا کے ساتھ ساتھ
یوں تو اس کے بال و پر کوئی نہیں
وہ تمازت ہے کہ جلتا ہے بدن
اب تو مرنے سے مفر کوئی نہیں
کہمن:
دشت ، تنہائی ، تمازت، گرد سے
ہر قدم پر اب نہ ڈرنا ہے ہمیں
اپنی ہمّت اور استقلال سے
دہشتِ غم کو پار کرنا ہے ہمیں
٭٭٭ |