* لہو تھے ہاتھ مگر معجزات لکھتا رہا *
لہو تھے ہاتھ مگر معجزات لکھتا رہا
جو لِکھ نہ پایا کوئی میں وہ بات لکھتا رہا
سمجھ نہ پایا تو پھر زندگی کو کاغذ پر
کبھی ثبات کبھی بے ثبات لکھتا رہا
مجھے تھا علم کہ کٹ جائیں گے یہ ہاتھ مرے
ہمیشہ دن کو میں دن ، شب کو رات لکھتا رہا
پلٹ کے آنا بھی جانے نصیب ہو کہ نہ ہو
میں ہجرتوں کو ہمیشہ برات لکھتا رہا
لکھا نہ مقبرہ ، مرقد ، نہ قبر میں نے کبھی
میں بے جھجک اِسے جائے حیات لکھتا رہا
ہر ایک شخص جداگانہ سوچ رکھتا ہے
شکار سب نے لکھا پر میں گھات لکھتا رہا
وہ میری وسعتِ دل سے بڑی نہیں ثاقبؔ
ہر ایک شخص جسے کائنات لکھتا رہا
***** |