* میں جسے چاہوں اُسے میرا مقّدر کر د *
میں جسے چاہوں اُسے میرا مقّدر کر دے
تُو دعائوں کو مری اتنا موثّر کر دے
کم سے کم دل مرا آیئنہ بنایا ہوتا
میں نے کب چاہا تھا دل کو مرے پتھر کر دے
اپنے معیار سے گِرنا نہیں منظور مجھے
رفعتِ شوق مرے قد کے برابر کر دے
کب کہا میں نے ستاروں کی طلب ہے مجھ کو
کب کہا میں نے کہ دریا کو سمندر کر دے
اِک تسلسل میں کہاں تک میں جئے جائوں گا
تُو مرے صبر کی کچھ حد تو مقرر کر دے
چند لمحوں کو وہ آتا ہے چلا جاتا ہے
ہے یہی وصل تو پھر ہجر مقدر کر دے
پہلے یہ دیکھ خطا کِس سے ہوئی ہے ثاقبؔ
جُرم ثابت جو مرا ہو تو قلم سر کر دے
**** |