* عجیب روگ لگایا ہے جان کے پیچھے *
غزل
سہیلؔ فاروقی
عجیب روگ لگایا ہے جان کے پیچھے
پڑا ہوا ہوں اُسی بدگمان کے پیچھے
فضول کرتی ہے سورج سے بے رُخی کا گلہ
وہ کھولیاں جو ہیں اونچے مکان کے پیچھے
بدل گیا ہے بہت اب مزاج راہبری
ضعیف لوگ رہیں نو جوان کے پیچھے
نہیں تو بارشِ رحمت کہاں سے آتی ہے
کوئی ضرور ہے اس آسمان کے پیچھے
خود اپنے چا ک گریباں کو دیکھتا ہی نہیں
وہ کیسا ملک ہے ہندوستان کے پیچھے
بہا کے لے گئی اپنی قیام گاہ کہاں
جو اک ندی تھی ہمارے مکان کے پیچھے
نظر سے اہل نظر کی چھپی نہیں ہے سہیلؔ
جو پستیاں ہیں امیروں کی شان کے پیچھے
٭٭٭
|