* یہاں سیم و زر کی غلاظت سے پہلے *
غزل
یہاں سیم و زر کی غلاظت سے پہلے
محبت تھی دولت کی کثرت سے پہلے
سبھی دیکھتے تھے حقارت سے مجھ کو
کسی کی نگاہِ محبت سے پہلے
عجب دل کی بے تابیاں رنگ لائیں
وہ خود آگئے میری چاہت سے پہلے
شبِ ہجر کی تیرگی ڈس رہی تھی
نمودِ سحر کی علامت سے پہلے
اُدھر مصحفِ رُخ ادھر میرے آنسو
وضو کر رہا ہوں تلاوت سے پہلے
ابھی بھی ہماری وہی ذہنیت ہے
غلامی میں تھی جو حکومت سے پہلے
بنایا ہے ہم نے ہی دنیا کو جنت
یہ محروم تھی ہر سہولت سے پہلے
اُنہیں سے عبارت ہے اب موسمِ گل
جو واقف نہ تھے رنگ و نکہت سے پہلے
بلندی ہے پستی کی مرحونِ منت
ہے بنیاد لازم عمارت سے پہلے
یہ بہتر ہے بھوکا ہی مر جائے انساں
ضمیروں کی گندی تجارت سے پہلے
سہیل اب وہ مجھ سے الجھنے لگے ہیں
جو کرتے تھے باتیں محبت سے پہلے
……………………………
|