* زندگی درد کی تصویر اگر ہوجائے *
غزل
زندگی درد کی تصویر اگر ہوجائے
اہلِ دل کیلئے فردوسِ نظر ہو جائے
تیری معراج اسی میں ہے کہ اے شامِ فراق
حُسن تیرا نہ ڈھلے اور سحر ہو جائے
آدمی وہ ہے کہ انگاروں میں بھی پھول بنے
برف میں کوئی دبا دے تو شرر ہو جائے
یوں لٹاتی ہیں گہر اشک کے میری آنکھیں
جیسے نادار کوئی صاحب زر ہو جائے
وقت کب کس کا بدل جائے اڑائو نہ مذاق
کوئی زردار اگر دست نگر ہو جائے
گھر کو جاتے ہوئے پھر ایک نظر دیکھ چلیں
کیا خبر لوٹ کے آئیں تو کھنڈر ہو جائے
جس کو کہتے ہیں ہنر وہ بھی ہے توہینِ ہنر
با ہنر کو جو یہاں زعمِ ہنر ہو جائے
یا مری آنکھوں سے بینائی ہی لے لے یارب
یا زمانے کا یہ منظر ہی دگر ہو جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ اس دل کی تباہی سے سہیل
بے خبر ہم بھی رہیں ان کو خبر ہوجائے
………………………………
|