* حصار خود ہی سمٹ جائیں آفتابوں کے *
غزل
حصار خود ہی سمٹ جائیں آفتابوں کے
چلو کہ پیڑ اُگا ڈالیں ہم بھی خوابوں کے
نہ ٹوٹ پایا کبھی سلسلہ امیدوں کا
سدا نقوش ابھرتے رہے سرابوں کے
نہ کوئی نام پتہ ہے نہ شکل ہے کوئی
تو ڈھونڈتا ہے کسے شہر میں نقابوں کے
یہ حادثہ ہے حقیقت ہے یا کہ دھوکہ ہے
حروف اڑنے لگے ہیں، مری کتابوں کے
دکھائی دیتا نہیں صاف کوئی بھی منظر
بگولے دور تک اڑتے ہیں اضطرابوں کے
کسی نے رات کو لوٹی ہیں سرخیاں اُن کی
اداس چہرے بتاتے ہیں یہ گلابوں کے
بہت مزاج ہے برہم ہوا کا اے ساجد
اُکھڑ نہ جائیں کہیں پائوں اب طنابوں کے
سلطان ساجد
17, Satkauri Chateerjee Lane, Howrah
Mob: 9339825831
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|