* سفر میں ساتھ مسافر تو کتنے رہتے ہی *
غزل
سفر میں ساتھ مسافر تو کتنے رہتے ہیں
مگر اکیلے ہم اپنی ہی رَو میں بہتے ہیں
نہ ہو کمالِ ہنر تو کسی کی کیا پہچان؟
کہ اپنے شہر میں بے چہرہ لوگ رہتے ہیں
ملا تو کیسا ملا شہرِ فکر و فن ہم کو
خزاں میں جیسے شجر بے لباس رہتے ہیں
یہاں ضروری نہیں سب پہ مہرباں ہونا
ستم کشی کے تقاضے بھی لوگ سہتے ہیں
طلب ہے یہ کہ ملے لفظ کو نیا معنی
خمار ماضی کو ، فردا کو خواب کہتے ہیں
تکلفات ملاقات سے ہیں مستثنیٰ
وہ میرے دوست جو گھر کے قریب رہتے ہیں
ہمارا اُن سے تعلق نہیں ہے کچھ ساجد
جو سچ کے تپتے اجالوں سے دور رہتے ہیں
سلطان ساجد
17, Satkauri Chateerjee Lane, Howrah
Mob: 9339825831
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
***** |