donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Sunil Kumar Tang
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* جو کبھی ممکن نہیں تھا کر دیا تونے و *
(سنیل کمار تنگ( سیوان
طنزیہ نظم
جو کبھی ممکن نہیں تھا کر دیا تونے وہ کام
سر جھکاتا ہے میرے ہی سامنے سارا نظام
تجھ سے اب منسوب کرتے ہیں سبھی اپنا کلام
ایسے ڈیر آتنک تجھ کو السلام و السلام
گڑتھا تو چینی بنا اور پھر بتاشا ہو گیا
ساری دنیا کی سیاست میں تماشہ ہو گیا
ہر جگہ ہر ہاتھ میں ہے آج کل پستول و بم 
بے زباں لوگوں پہ توڑے جاتے ہیں جو ر وستم
کانپتے ہیں تیرے تیور سے زمیں، لوح و قلم
جی رہے ہیں رات دن آتنک کے سائے میں ہم
ساری دنیا کی سیاست کو بہانہ مل گیا
ہاں تجھے بھی اس سیاست میں ٹھکانہ مل گیا
اعلیٰ درجہ کے جو دہشت گرد ہیں فارن میں ہیں
راجدھانی میں ہیں کچھ تو کچھ ویرپّن بن میں ہیں
چھوٹے دہشت گرد تو اس ملک کے کن کن میں ہیں
ہم تو بس بے کار ہی یہ سونچ کر ٹنشن میں ہیں
آج کل سب سے بڑا ہونے کی یہ پہچان ہے
اپنے دہشت گرد پر ہر دیش کو ابھیمان ہے
کون انٹر نیشنل ہے ہم نہیں بتلائیں گے
باہری ہے یا لوکل ہے ہم نہیں بتلائیں گے
مجرموں کا کون دل ہے ہم نہیں بتلائیں گے
یہ سیاست کیوں سپھل ہے ہم نہیں بتلائیں گے
آگے پیچھے سوچ کر ہر شخص چپ ہو جائے گا
کون دہشت گرد ہے کوئی نہیں بتلائے گا
ستّا ہے محفوظ صبح و شام تیرے نام سے
میڈیا کا چل رہا ہے کام تیرے نام سے
مندر و مسجد ہوئے بدنام تیرے نام سے
ان پہ عائد ہو گیا الزام تیرے نام سے
رام اور رحمن دونوں آج کل لاچار ہیں
چند دہشت گرد ان دونوں کے ٹھیکے دار ہیں
ہر طرف ہر موڑ پر بس مذہبی اُنماد ہے
دھرم کا اندھا ہی تیرے شہر میں آباد ہے
اب کہاں مظلوم کے لب پر کوئی فریاد ہے
جو چمن آباد تھا اب وہ چمن برباد ہے
بم سے اور بارود سے اب لیس ایک اک فرد ہو
اک نیا مذہب ہو جس کا نام دہشت گرد ہو
بین الاقوامی سیاست کی غضب کی ریس ہے
دیتی ہے اپدیش لیکن یہ سیاسی فیس ہے
درحقیقت حیثیت کو آنکنے کا کیس ہے
جیسا دہشت گرد ہے اس ملک وہ بھیس ہے
پہلے دو ملکوں میں خود آتنک پھیلاتی ہے وہ
پھر پڑوسی ملک کا جھگڑا بھی سلجھاتی ہے وہ
بھول کر اپنا پرایا تونے اپنے دیش میں
خوف کا منظر دکھایا تونے اپنے دیش میں
مفلسوں کاگھر جلایا تونے اپنے دیش میں
خون کا دریا بہایا  تونے اپنے دیش میں
نام اپنے دیش کا تونے اجاگر کر دیا
اس طرح بد نام ملکوں کے برابر کر دیا
تو کہیں ہے انگ رکچھک تو کہیں گھس پیٹھیا
تو کہیں ہے قوم کا لیڈر کہیں چمچا نپا
تو ہی تو ہے ہر طرف تو کیا تھا اور کیا ہوگیا
چار و ںجانب بس تیرے ہی نام کا سکّہ چلا
اس سیاسی دور میں تیری بڑی پہچان ہے
تجھ پہ ہی یہ ساری دنیا آج کل قربان ہے
ہاں فقط تیرے سبب ہی ہر طرف نفرت بڑھی
تیرے چلتے آج پہریدار کی قیمت بڑھی
عالمی دادا گری میں اپنی بھی عزت بڑھی
ساری دنیا میں ہمارے نام کی شہرت بڑھی
ننگے بھوکے اب پڑوسی ملک بھیجے جائیں گے
ذات مذہب بیچ کر آتنک جو پھیلائیں گے
وشو کے ہر دھرم کی ہے ٹھیکیداری اب تیری
ہر حکومت سے ہے گہری رشتے داری اب تیری
چل رہی ہے تیز سب سے کیوں سواری اب تیری
چال لگتی ہے سیاسی کاروباری اب تیری
ورنہ پنٹا گن سے تو کیسے بھلا ٹھکرائے گا
جان دینے کے لئے سنسند بھون کیوں جائے گا
تو ہی تو ظلم و ستم کی نائو کا پتوار ہے
نام ہے دس بیس لیکن ایک ہی پریوار ہے
تیرے اعلیٰ کارناموں سے کسے انکار ہے
سچ تو یہ ہے آج کل تو سب سے ذمے دار ہے
جب کبھی بھی قتل ہو یا ہو کوئی بھی اپہرن
ذمے داری لیتا ہے تیرا ہی کوئی سنگٹھن
مفلسوں کی بستیوں پر قہر کتنا ڈھائے گا
 اپنے کرتوتوں پر آخر بول کب شرمائے گا
بول کس اونچائی تک آتنک تو پھیلائے گا
تو کہاں سے آیا ہے اور تو کہاں تک جائے گا
امریکہ ہو روس، پاکستان یا بھارت کہ چین
تو سیاست کی اپج ہے اس کا ہے ہم کو یقین

جس کے سر پڑ جائے تو کہتا ہے وہ تجھ کو برا
دوسرو ں کے سر پہ جو جائے تو لیتا ہے مزہ
اپنے مطلب کے لئے دیتے ہیں سب تجھ کو صدا
 تو بتا دنیا میں تیری ہے بھلا اوقات کیا
 جس نے کابل میں تجھے آتنک وادی کہہ دیا
آیا جب کشمیر تو تجھ کو سپاہی کہہ دیا
 تجھ کو پیدا کرنے والا کوستا ہے اب تجھے
اپنے مطلب کے لئے وہ ٹوکتا ہے اب تجھے
اپنی طاقت آزما کر روکتا ہے اب تجھے
امن کا دشمن ہے تو یہ بولتا ہے اب تجھے
امن کا دشمن بھی تیرا آج دشمن ہو گیا
ہائے تو لادین، دائود  ویرپن ہو گیا
ظالموں کے قوم و مذہب سے جوڑا تجھے
ہائے سنسد سے سڑک تک کب بھلا چھوڑا تجھے
جب جہاں چاہا ارے اس سمت ہی موڑا تجھے
تجھ کو جس نے خود بنایا اسنے ہی توڑا تجھے
پیش سنسد میں ہوا جب بل کوئی تیرے خلاف
آدھے لوگوں کا ہوا اس بل پہ کیسے اختلاف
چند ٹکڑوں کے لئے تو تاکتا رہ جائے گا
اس گلی میں اس گلی میں بھونکتا رہ جائے گا
لوگ مطلب کی سنیں گے چیختا رہ جائے گا
اس سیاست میں فقط چمچا بنا رہ جائے گا
اپنی طاقت آزما اپنی زباں بھی کھول تو
آدمی پر قہر برپا ہو تو اس دم بول تو
ہاں کسی کو ہو نہ ہو ہم کو تو ہے پورا یقین
کام جب ہو جائے تو ہوتا ہے کوڑی کے تین
تو کسی کی ہے ضرورت تو کسی کی جانشین
تجھ کو پیدا کرنے والا ہے سیاست میں مہین
تنگ کا ہے مشورہ یہ مشورہ تو مان لے
اس سیاسی دور میں ماں باپ کو پہچان لے
٭٭٭
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 567