* تیرگی میں روشنی کے تھے نشاں *
غزل
تیرگی میں روشنی کے تھے نشاں
خواب میں اب بھی پری کے تھے نشاں
جیسے تربت پر ہی بکھری چاندنی
کچھ لبوں پر یوں ہنسی کے تھے نشاں
تیر تھے صیاد کے سوئے فلک
اور فضا میں جانکنی کے تھے نشاں
ہر مکاں کے کچھ مکیں تو تھے مگر
بام و در پر خامشی کے تھے نشاں
ان کہی فریاد لب پر سوگئی
زیرِ مژگاں بے کسی کے تھے نشاں
سامنے تھا اک سمندر تو مگر
ساحلوں پر تشنگی کے تھے نشاں
وہ سرابوں کے سوا انجم تھے کیا
جو بھی صحرا میں ندی کے تھے نشاں
سید انجم رومان
654, S.A.Farooqi Road, Matia Burj
Kolkata-700024
Mob: 9832242047
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
……………………… |