* بارہا سوچ کے بھی دیکھا سنبھل کر دی *
شہر آشوب
بارہا سوچ کے بھی دیکھا سنبھل کر دیکھا
نہ ہوا پر نَہُوا مسئلہ حل کر دیکھا
میرؔ صاحب کی شریعت پہ عمل کر دیکھا
شہر آشوب کو پھر ہم نے غزل کر دیکھا
مصرعہِ تر کسی صورت نہ غزل میں آیا
رُوٹھ کر چاہا منالیجے، مچل کر دیکھا
قتل و غارت گری تقدیر نہ تھی شہرِ حزیں
ہَوسِ نسل کُشی تُو نے نہ ٹَل کر دیکھا
عصبیت ناس ترا،آگ بھڑکتی ہی رہی
لاکھ نفرت کو محبت سے بدل کر دیکھا
چشمِ پُر آب تری اشک شوئی کون کرے!
آئینہ رُو ہوئی یا عکس میں ڈھل کر دیکھا
زندگی بھر کسی سائے کی طرح وہم رہا
تُونے ہم زاد مرے ساتھ نہ چل کر دیکھا
سچ بیانی سے مجھے خواب کی تعبیر ملی
کُھل گئی آنکھ مگر ہاتھ نہ مَل کر دیکھا
نام ور کوئی ہوا، کام کسی کا نکلا
ہاشمیؔ تُو نے کیوں اعصاب کو شل کر دیکھا
سیدانورجاویدہاشمی
|