سید شاہ نعیم الدین نعیمی
سبھی ذی ہوش قوموں کا ہے قرنوں سے یہ اندازہ
کلید ِ آگہی کرتی ہے پیدا فکر و فن تازہ
مفادِ ذات غالب ہو اگر طرزِ حکومت میں
بکھر جاتا ہے ایسے عہد کا پھر جلد شیرازہ
نہ کھل پایا درِ ایجاب اب تک ان دعاؤ ں پر
گو میں نے کھٹکٹایا خوب اس کے گھر کا دروازہ
سزاوارِ سزا ہے صاف گوئ شہر میں تیرے
کہ سچ کہنے کا بھگتا ہے بہت کچھ ہم نے خمیازہ
نہیں تخصیص کوئ بھی ‘ مکاں ہر ایک ہے یکساں
جہاں زنجیر لرزاں ہے ہوی ہے اس کا دروازہ
ہو دریا کی روانی یا سمندر کی ہو گہرائ
شناور ہو بھی تو کرلو ہنر کا پہلے اندازہ
مکیں کب ہیں زمیں کے ہم بصد مجبوری ٹھیرے ہیں
خطاے آسمانی کا ہمیں ہیں اپنا خمیازہ
مقیّد ہوں میں جبرِ زیست کی سنگیں دیواروں میں
بجز اک موت اور کوئ نہیں ہے اس کا دروازہ
کبھی ایسے تبسم پر نہ جاو یوں نعیمی تم
ملے گا اصل چہرہ تم کو گر دیکھو تہہِ غازہ
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸