سید شاہ نعیم الدین نعیمی
(شکاگو)
کاروانِ بے نشاں کا رہ نما ہو جاؤں میں
ہر نشان میل پر جلتا دیا ہو جاؤں میں
یہ متاع زندگی ہے مختصر سی کایٔنات
ایک نکتہ میں سمٹ کر انتہا ہو جاؤں میں
جبر و استبداد سے کچلا ہوا رنگ حیات
بے بسوں کی ہونٹ سے نکلی دعا ہو جاؤں میں
تیز و تند لمحات میں ہو مرحلہ سچ بات کا
رک نہ جاییٔ یہ زباں بے ساختہ ہو جاؤں میں
یاد ہے اس کو یہ کہنا دیر سے آؤنگا میں
وہ جو آے دیر سے تو خود خفا ہوجاؤں میں
ریشمی بند ِ قبا سے کر سکوں اٹکھیلیاں
باغ میں وہ آییٔں تو بادِ صبا ہوجاؤں میں
زینتِ طاقِ گریزاں ہو مروّت ‘مصلحت
بات کے اظہارِ حق پر بر ملا ہوجاؤں میں
حشر میں پرسش سے بچنے یوں فرشتوں سے چھپوں
پردۂ اخفا میں رہ کر واہمہ ہوجاؤں میں
قلبِ یزداں میں اترجاؤں بہ مثل آہ سوز
چوٹ کھایٔٔ دل سے نکلی وہ صدا ہوجاؤں میں
وہ شروعاتِ جہاں کے مرحلے دیکھوں کبھی
اس زمین و آسماںکی ابتدا ہو جاؤں میں
*****************