سید شاہ نعیم الدین نعیمی
مرزا غالب کی ایک غزل کے مصرع ‘گنجایشِ عداوت اغیار اک طرف‘
پر طرحی غزل کی ایک کوشش
ہیں جب طلوعِ شمس کے آثار اک طرف
سوتی ہے قوم رکھ کے سب افکار اک طرف
محلوں کے ہیں کھنڈر بنے آثار اک طرف
شاہانہ مقبروں کے بھی مینار اک طرف
زیبایشِ محبت ہر کس ہے دل گداز
‘‘گنجایشِ عداوت اغیار اک طرف’’
تھا محوِخواب مہرِ مسیحا تمام شب
محرومِ لطفِ نوم ہے بیمار اک طرف
فرمایشِ شکم ہے ہے فقط رزق کا حصول
آسایشِ حیات کے بازار اک طرف
فہمایشِ نزاکتِ جمال یوں بھی ہے
رکھو تم اپنے شکووں کا انبار اک طرف
قدرت نے جستجو کے لیے دی کھلی فضا
اور کھینچ دی نصیب کی دیوار اک طرف
لفظوں میں قند ان کے نعیمی ہے موجزن
رکھتے بھی ہیں وہ ہاتھ میں تلوار اک طرف
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸