سید شاہ نعیم الدین نعیمی
مری یوں لب کشای پر ترا سکتہ ہی کافی تھا
تری اثباتی جنبش کا عمل یکسر اضافی تھا
پلک اٹھنے کے وقفہ نے مجھے تسخیر کر ڈالا
تمھارا نقش جمنے کو بس اک لمحہ ہی کافی تھا
مرے قلب تپیدہ کو خدا نے سرفرازی دی
مری آنکھوں کا یہ گریہ گناہوں کی تلافی تھا
یقیں میں کیسے کر لیتا تمھاری تلخ گوی کا
گھٹا کا آگ برسانا تو فطرت کے منافی تھا
قسم تم جان کی کھاتے نہ اتنی دور تک جاتے
نگاہوں سے ہی گر اقرار کرلیتے تو کافی تھا
ہوے تھےمہرباں جب وہ میں دامن تھام ہی لیتا
وہ موقع کھودیا میں نے وہی وقتِ معافی تھا
کبھی ویران رستوں پر نعیمی میں نہ گھبراتا
سفر کی ہر صعوبت میں بس ان کا ساتھ کافی تھا
ٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸